Search This Blog

چند ملعون اہم کمانڈروں اور ان کے خاندانی پس منظر

 جہاں ایک طرف نواسۂ رسولؐ تھے، وہیں دوسری طرف وہ چہرے تھے جو مسلمان کہلاتے تھے مگر ظلم کے علَم بردار بنے۔ کربلا میں امام حسین علیہ السلام کے مخالف لشکر کی قیادت مختلف کمانڈر کر رہے تھے، جن میں سے ہر ایک اپنے قبیلے اور خاندان سے تعلق رکھتا تھا۔ یہ سب بنیادی طور پر عبید اللہ ابن زیاد کے ماتحت تھے، جسے یزید بن معاویہ نے کوفہ کا گورنر مقرر کیا تھا اور خاص طور پر امام حسین علیہ السلام کو روکنے اور بیعت پر مجبور کرنے یا ان سے لڑنے کا حکم دیا تھا۔

یہاں چند ملعون اہم کمانڈروں اور ان کے خاندانی پس منظر کی تفصیل دی جا رہی ہے:
1. عمر بن سعد (ابن سعد):
* پورا نام: عمر بن سعد بن ابی وقاص الزہری۔
*تعلق: مشہور صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم، سعد بن ابی وقاص کے بیٹے تھے۔
* کردار: یزیدی لشکر کا مرکزی سپہ سالار۔ عبید اللہ ابن زیاد نے اسے رے (شہر) کی گورنری کا لالچ دیا تھا، جس کے بدلے اسے امام حسین علیہ السلام سے جنگ کرنے کا حکم دیا گیا۔ عمر بن سعد نے پہلے کچھ ہچکچاہٹ دکھائی لیکن "رے" کی حکومت کے لالچ میں اس نے امام حسین علیہ السلام کے خلاف جنگ کی کمان سنبھالی۔ اس نے ہی امام حسین علیہ السلام کو محاصرہ میں لیا اور بالآخر عاشور کے دن جنگ کا آغاز کیا۔
2. شمر بن ذی الجوشن (ابن ذی الجوشن):
* پورا نام: شمر بن ذی الجوشن الضبابی الکلابی۔
* تعلق: بنو کلاب قبیلے سے تعلق رکھتا تھا۔ یہ ایک سخت دل اور سفاک شخص تھا۔
* کردار: یہ یزیدی لشکر کے اہم کمانڈروں میں سے ایک تھا اور اس نے کربلا کے واقعے میں انتہائی وحشیانہ کردار ادا کیا۔ اس نے عمر بن سعد کو امام حسین علیہ السلام پر سختی کرنے اور پانی بند کرنے کا مشورہ دیا۔ امام حسین علیہ السلام کو شہید کیا ان کے سر کو تن سے جدا کیا۔ اس نے اہل بیت کے خیموں کو جلانے اور امام سجاد علیہ السلام کو بھی شہید کرنے کی کوشش کی تھی۔
3. عبید اللہ ابن زیاد:
* پورا نام: عبید اللہ بن زیاد بن ابیہ۔
* تعلق: زیاد بن ابیہ کا بیٹا تھا، جو معاویہ کے زمانے میں عراق کا طاقتور گورنر تھا۔ زیاد بن ابیہ کو معاویہ نے اپنا بھائی قرار دیا تھا، حالانکہ وہ اس کے باپ نہیں تھے۔ اس کی ماں ایک طائف کی لونڈی تھی۔
* کردار: یزید نے اسے خصوصی طور پر امام حسین علیہ السلام کے معاملے سے نمٹنے کے لیے کوفہ بھیجا تھا۔ کربلا میں موجود تمام کمانڈر اس کے احکامات کے پابند تھے۔ اس نے ہی مسلم بن عقیل کو شہید کیا اور امام حسین علیہ السلام کے قافلے کو کوفہ میں داخل ہونے سے روکا۔
4. حر بن یزید الریاحی:
* پورا نام: حر بن یزید الریاحی التمیمی۔
* تعلق: بنو تمیم قبیلے سے تعلق رکھتا تھا۔
* کردار: ابتدا میں یہ یزیدی لشکر کا حصہ تھا اور اسے امام حسین علیہ السلام کے قافلے کو روکنے کا حکم دیا گیا تھا۔ اس نے ہی امام حسین علیہ السلام کو کربلا کے میدان میں پڑاؤ ڈالنے پر مجبور کیا۔ تاہم، عاشور کے دن، اس نے اپنے غلط کام کا احساس کیا اور اپنے چند ساتھیوں کے ساتھ توبہ کر کے امام حسین علیہ السلام کے لشکر میں شامل ہو گیا اور بہادری سے لڑتے ہوئے شہید ہوا۔ وہ مخالف فوج کا ایک کمانڈر تھا جو بالآخر حق کی طرف پلٹ آیا۔
5. حصین بن نمیر السکونی:
* پورا نام: حصین بن نمیر السکونی۔
* تعلق: قبیلہ سکون سے تعلق رکھتا تھا۔
* کردار: یہ عبید اللہ ابن زیاد کے اہم کمانڈروں میں سے ایک تھا۔ مسلم بن عقیل کے خلاف کارروائیوں میں بھی اس کا اہم کردار تھا۔ کربلا میں یزیدی فوج کے میمنہ کی کمان اس کے ہاتھ میں تھی۔
6. کعب بن حرو (یا کعب بن جابر الازدی):
* پورا نام: کعب بن حرو الازدی یا کعب بن جابر الازدی۔
* تعلق: قبیلہ ازد سے تعلق رکھتا تھا۔
* کردار: یہ بھی یزیدی فوج کا ایک اہم کمانڈر تھا اس نے امام حسین علیہ السلام پر تیر اندازی کی۔
7. شبث بن ربعی التمیمی:
* پورا نام: شبث بن ربعی التمیمی۔
* تعلق: قبیلہ تمیم سے تعلق رکھتا تھا۔
* کردار: یہ ان کوفی سرداروں میں سے تھا جنہوں نے امام حسین علیہ السلام کو خطوط لکھ کر کوفہ آنے کی دعوت دی تھی، لیکن بعد میں عبید اللہ ابن زیاد کے دباؤ پر اس نے اپنا ارادہ بدل لیا اور یزیدی لشکر میں شامل ہو گیا۔ کربلا میں یزیدی فوج کے پیادہ دستے کی کمان اس کے ہاتھ میں تھی۔
8. عمرو بن حجاج الزبیدی:
* پورا نام: عمرو بن حجاج الزبیدی۔
* تعلق: قبیلہ زبید سے تعلق رکھتا تھا۔
* کردار: یہ بھی کوفی سرداروں میں سے تھا جو پہلے امام حسین علیہ السلام کے طرفدار تھے لیکن بعد میں یزیدی فوج میں شامل ہو گئے۔ اسے فرات پر پہرا دینے کا حکم دیا گیا تھا تاکہ امام حسین علیہ السلام کے قافلے تک پانی نہ پہنچ سکے۔
●چھوٹے کمانڈرز اور ان کے کردار:
بڑے کمانڈرز کے علاوہ، فوج کو مختلف حصوں میں تقسیم کیا گیا تھا اور ہر حصے کی قیادت چھوٹے کمانڈرز کر رہے تھے جن کی مخصوص ذمہ داریاں تھیں:
* مقدمۃ الجیش (اگلا دستہ): فوج کا ہراول دستہ، جو سب سے پہلے میدان میں آتا تھا۔ اس کی قیادت عمر بن سعد کرتے تھے۔
* میمنہ (دایاں بازو) اور میسرہ (بایاں بازو): فوج کے دائیں اور بائیں بازو کے دستے، جن کی کمانڈ حصین بن نمیر، عمرو بن حجاج الزبیدی جیسے افراد کے پاس تھی۔ یہ جنگ کے دوران اطراف سے حملہ کرنے اور گھیرے میں لینے کا کام کرتے تھے۔
* قلب الجیش (مرکزی دستہ): فوج کا مرکزی حصہ جہاں سے بڑے کمانڈرز جنگ کی نگرانی اور ہدایات جاری کرتے تھے۔
* رجالہ (پیادہ دستہ): پیدل چلنے والے سپاہی، جن میں سے کئی نے تیر اندازی اور نیزہ بازی کی تھی۔ شبث بن ربعی جیسے کمانڈر اس حصے کی قیادت کر رہے تھے۔
* فرسان (گھڑ سوار دستہ): گھوڑوں پر سوار سپاہی، جو تیزی سے حرکت کرتے ہوئے حملے کرتے تھے۔
* تیراکی دستے: کچھ کمانڈرز کو دریائے فرات پر تعینات کیا گیا تھا تاکہ امام حسین علیہ السلام کے قافلے تک پانی نہ پہنچ سکے۔ عمرو بن حجاج کو اس ذمہ داری پر لگایا گیا تھا۔
* خیموں کو لوٹنا اور جلانا: جنگ کے بعد، ان میں سے کئی سپاہیوں نے امام حسین علیہ السلام کے خیموں پر دھاوا بول دیا، انہیں لوٹا اور آگ لگا دی، جس میں خواتین اور بچے بھی موجود تھے۔
* سروں کی نمائش: شہداء کے سروں کو تنوں سے جدا کر کے نیزوں پر بلند کیا گیا اور انہیں کوفہ اور پھر دمشق میں یزید کے دربار میں نمائش کے لیے پیش کیا گیا۔ یہ فتح کا جشن منانے کا ایک سفاکانہ طریقہ تھا۔
* اسیرانِ اہل بیت کو لے جانا: جنگ کے بعد، امام حسین علیہ السلام کے باقی ماندہ اہل خانہ کو، جن میں خواتین اور بچے بھی شامل تھے، قیدی بنا کر کوفہ اور پھر دمشق لے جایا گیا۔
* قبائلی سردار: عرب قبائلی نظام میں، ہر قبیلے کا ایک سردار ہوتا تھا جو اپنے قبیلے کے جنگجوؤں کی قیادت کرتا تھا۔ یزیدی فوج میں بھی مختلف قبائل کے سردار شامل تھے جو اپنے ماتحت دستوں کی کمان کر رہے تھے۔ ان کے نام اگرچہ تاریخ میں عمر بن سعد یا شمر جتنی شہرت نہیں رکھتے، لیکن وہ اپنے اپنے درجے پر لعنتی کمانڈر تھے۔
* لشکر کے مختلف شعبوں کے سربراہان: فوج کو مختلف شعبوں میں تقسیم کیا جاتا تھا، جیسے پیادہ دستہ، گھڑ سوار دستہ، تیر انداز دستہ، نیزہ باز دستہ وغیرہ۔ ہر شعبے کا اپنا سربراہ ہوتا تھا جو اپنے دستے کو احکامات دیتا تھا۔